the etemaad urdu daily news
آیت شریف حدیث شریف وقت نماز
etemaad live tv watch now

ای پیپر

انگلش ویکلی

To Advertise Here
Please Contact
editor@etemaaddaily.com

اوپینین پول

کیا آپ کو لگتا ہے کہ دیویندر فڑنویس مہاراشٹر کے اگلے وزیر اعلیٰ ہوں گے؟

جی ہاں
نہیں
کہہ نہیں سکتے

عظیم محمد علی کلے مرحوم

Mon 13 Jun 2016, 19:38:15

عبدالرافع رسول

ان کے جنازے کے وقت امریکہ کے دروبام کلمہ شہادت سے گونج اٹھے ۔یہ خداکی دین ہے کہ جسے چاہے کفروضلال کی غلاضتوں سے نکال کرطیب اورپاک راستے پرگامزن کرے ۔
قبل از قبول اسلام ،محمد علی کاعیسائی نام کیسس کلے تھامگرحلقہ بگوش اسلام ہونے کے بعدانہوںنے اعلان کیا کہ اب انہیں کیسس کلے کے نام سے نہ پکاراجائے کیونکہ یہ ایک غلام عیسائی کانام تھا،اب وہ ایک مسلمان ہیں اوران کا نام محمد علی ہے ۔ محمدعلی نے اسلام قبول کرتے ہی اپنے آپ کودنیاکی ساری غلامی ، ساری نوکری، چاکری سے آزادکرلیا، محمد علی راسخ العقیدہ مسلمان اوروہ اعتقادکے پختہ تھے۔ایک ٹی وی انٹرویومیں ایک سوال کے جواب میں محمد علی کاکہناتھاکہ ’’میںضرور عظیم ترین تھا مگر خدا نے آپ سب کو بتایا ہے کہ محمد علی بہرحال ایک انسان ہی ہے‘‘ ان کا انٹرویو یو ٹیوب پر موجود ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ یہ دنیا فانی ہے اور ہر شخص نے یہاں سے رخصت ہونا ہے خواہ اس کی عمر کتنی بھی لمبی کیوں نہ ہو جائے اس نے ایک روز اپنے رب کے ہاں پیش ہونا ہے اور اپنے اعمال کا سامنا کرنا ہے۔ چودہ منٹ پر مشتمل یہ کلپ دیکھنے اور سمجھنے والا ہے۔
باکسنگ کی دنیا کے شہنشاہ محمد علی کلے نے کئی مرتبہ اس بات کا اظہار کیا کہ ان کی زندگی کے پر مسرت ترین لمحات وہ تھے جب انہوں نے اسلام قبول کیا اور ایمان کی حلاوت کو چکھا۔ ان کا اس ایمانی لذت تک پہنچنے کا سفر کیسا رہا ؟انسان دوست شخصیت قرار دیے جانے والے محمد علی کی زندگی میں یوں تو کئی شگون سامنے آئے تاہم زندگی کا فیصلہ کن موڑ 1964 میں آیا جب وہ شہرت کی بلندیوں پر تھے اور اسی سال انہوں نے پہلی مرتبہ عالمی چیمپیئن ہونے کا اعزاز حاصل کیا اور ساتھ ہی اسلام قبول کرنے کا اعلان بھی کر ڈالا۔قبول اسلام کے بعد ان کے دونوں آہنی پنجے غریبوں اور ناداروں پر ہمدردی کے پھول برسانے والے محبت بھرے ہاتھوں میں تبدیل ہوگئے۔اس طرح کیسیئس مارسیلس کلے نے اپنے ماضی کو خیرباد کہہ کرمحمد علی کلے کے نام سے زندگی کے نئے مرحلے کا آغاز کیا۔ ایک ایسا مسلمان جو اپنے دین کے راستے میں ہر ممکن کوشش اور مال خرچ کرنے کے لیے تیار تھا۔وہ دین اسلام کے دل سے شیدا رہے-وہ اللہ کی وحدانیت کے زبردست قا ئل تھے-وہ سمجھتے تھے کہ انسانی زندگی چار روزہ ہے- اللہ کی خوشنودی ہی بڑا اعزاز ہے -یہی ابدی طور پر باقی رہے گا-وہ سب سے بڑا اعزاز اللہ کی خوشنودی کو سمجھتے رہے،جس پر وہ تا حیات قائم رہے-ان کے اسلام قبول کرنے کے حوالے سے محمد طماشی اپنی کتاب عظیم شخصیات اور مفکرین کا قبول اسلام میں محمد علی کی زبانی لکھتے ہیں کہ 1964 میں ریاست فلوریڈا میں پہلی مرتبہ میں نے یہ سنا کہ خدا ایک ہے جس کے سنتے ہی میں ہل گیا اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں جبکہ عیسٰی علیہ السلام اللہ کے انبیاء میں سے ایک ہیں۔ قرآن وحی کا مکمل مجموعہ ہے جس کی خود حفاظت کی گئی۔یہ سب میرے لیے نیا تھا اور اس نے مجھ پر زبردست اثر ڈالا۔ اسلام لانے کے بعد میں انسانی سلامتی اور حقیقت کو پایا۔ میں نے نماز، روزہ، اللہ سے تعلق کو سیکھا اور پھر مصر ہوگیا کہ میں لوگوں کو اللہ کے دین حنیف یعنی اسلام کی طرف دعوت دوں۔
    محمدعلی نے امریکہ میں نسلی تعصب اور جنگوں کے خلاف اور سیاہ آبادی کے لئے برابری کے حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والے کارکن کی شکل میں بھی بے مثال خدمات انجام دیں ۔ جان جوکھم میں ڈال کرانسانیت کی شمع روشن کرنے والوں میںسے وہ ایک ہیں۔محمد علی نفس کے اسیر غلام نہ تھے-جھوٹی شہرت کے دلدادا نہ رہے- امریکہ کی ایک عالمی سماجی تنظیم متعدد شعبہ زندگی میں نمایاں کاکردگی بتلانے والوں کو اعزازات دیا کرتی ہے-جنکو اعزازات دیتی ہے ان کے نام وہاں ایک مخصوص زمین کے حصہ پر لکھ دئیے جاتے ہیں-لیکن محمد علی کلے نے وہ اعزاز لینے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیاکہ جب تک نہ امریکہ میںنسلی تعصب کاخاتمہ ہوجاتاہے وہ یہ ایوارڈقبول نہیںکرسکتا۔یہ اس امرکی طرف بلیغ اشارہ تھا کہ وہ دنیاوی شہرت سے پرے تھے۔محمد علی اس بات پرمضطرب تھے کہ انہوں نے اپنے ملک امریکہ کا نام اونچا کیا-اس کے باوجود، امریکی سماج میںرنگ ونسل کے نام پر تضحیک کی گئی-بلا شبہ دنیاوی اعزازات سے بڑھ کر ،خود داری ،عزت نفس اور مساوات ایک انسان کے لئے ضروری ہیں ۔محمد علی کی پیدائش17 جنوری، 1942 میںامریکی ریاست کنٹکی کے شہر لوئسویل میں پیدا ہوئے اور اپنے والد کیسیئس مارسیلس کلے سینئر کے نام پر کیسیئس مارسیلس کلے جونیئر کہلائے۔ امریکہ کے ایک سابق مکے باز تھے، جو 20 ویں صدی کے عظیم ترین



کھلاڑی قرار پائے۔ان کو عظمت اس وقت حاصل ہوئی جب 1960 میں روم اولمپِک میں انہوں نے سونے کا تمغا جیتا۔لیکن تمغا جیتنے کے بعد جب وہ اپنے شہر واپس آئے تو وہ نسلی امتیاز کا شکار ہوگئے۔ ایک ریستوران میں انہیں اس لئے نوکری نہ مل سکی کیونکہ وہ سیاہ فام تھے اور اس واقعے کے نتیجے میں انہوں نے اپنا سونے کا تمغا دریائے اوہائیو میں پھینک دیا تھا۔لیکن ان واقعات کے باوجود ان کی کامیابیوں کا سلسلہ چلتا رہا۔
امریکی فوج کے ہاتھوں سالہا سال سے ویت نام پرظلم و ستم کا بازار گرم تھا۔مگرمحمد علی ویتنام میں امریکی جارحیت کے خلاف تھے-امریکی حکومت انہیں فوج میں شامل کر کے ویتنام کے جنگی محاذ پر بھیجنا چاہتی تھی-لیکن انہوں نے کھلم کھلا انکار کردیا- ایک عالمی سپر پاور امریکی حکومت کا انکار، کسی بڑی سزا و ہزیمت میں مبتلا ہونے کی دعوت کے مترادف تھا-مگرجو اللہ کے آگے سجدہ ریز ہوا کرتے ہیں-وہ پھر وقت کی بڑی سے بڑی شیطانی طاغوتی طاقتوں سے نہیں ڈرا کرتے-1966 میں اس نے امریکی فوج میں بھرتی ہو کر ویت نام میں جنگ لڑنے سے انکار کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ جنگ ناجائز ہے اور ملکی دفاع کی لڑائی نہیں ہے۔ ویت نام کی جنگ میں جانے سے جب اس مردحرنے انکارکردیا۔تو انکار پر اس کا ورلڈ چمپین کا ٹائٹل چھین لیا گیا اور اس کے باکسنگ کھیلنے پر پابندی لگا دی گئی۔انہیں جیل خانہ میں بھیجنے کافیصلہ سنایاگیا۔اس ایک انکارپرمحمدعلی کے سارے اعزازات چھین لئے گئے-پانچ سال کی سزا ہو گئی- پانچ سال وہ عدالتی جنگ لڑتا رہاجابر امریکی حکومت کے خلاف محمد علی کلے کی لڑائی پرانکے پاس دلائل تھے ،کیوںکہ وہ حق پرتھے-اسی لئے امریکی سپریم کورٹ نے محمد علی کلے کو دی گئی سزائوں کو ختم کر دیا۔سپریم کورٹ کے فیصلے سے انہیں کامیابی اور حکومت امریکہ کو ہارہوئی -سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت وہ فوج میں بھرتی سے مستثنیٰ قرار پائے ،اوران کے تمام اعزازات انہیں واپس کر دیئے گئے۔محمدعلی کا مدمقابل اوران کاحریف جارج فارمین کہتاہے کہ علی اپنے زمانے کاایک ایسابہادر، جری انسان تھا، اتناسچااورپکاکہ اس کے حریف بھی اس کے متعلق سچ بولنے سے ذرابھی ہچکچاتے نہیں تھے ۔
جس نے بھی محمدعلی کوپڑھا دیکھا،سمجھاوہ یہ کہے بغیرنہیں رہ سکتا کہ وہ ایک وہ ایک بڑااورعظیم انسان تھا ، وہ عظیم صرف اس لئے تھاکہ وہ انسانی عظمت اورحق وانصاف کی علمبرداری کے راستہ پربے خوف وخطرگامزن تھاوہ امریکہ جیسی عظیم طاقت کے سامنے نہیں جھکا،اپناہویابیگانہ اس کی عظمت کوآج سلام کررہاہے اس نے جوکہاتھاکہ ایک سیاہ فام مسلمان کی عظمت اورشوکت کودنیامشکل سے قبول کرے گی۔ مگرآج دنیامشکل ہی سے سہی قبول کرنے پرآمادہ ہے ۔ وفات سے چندیوم قبل محمدعلی کلے نے اپنے ایک انٹرویومیں کہاکہ میں نے اپنے محل کو ایک جامع مسجد اور قرآن کریم کی تعلیم کے مرکز میں تبدیل کردیا۔ اس کے علاوہ میں نے شکاگو میں سب سے بڑی مسجد کی تعمیر شروع کی اور یہ مسجد ایک اسلامی مرکز ہوگا۔ ان دنوں میں اسلامی کتب خرید کر امریکا میں مسلمانوں میں مفت تقسیم کر رہا ہوں اور ساتھ ہی اپنے فلاحی اور دینی دعوت کے کام کو جاری رکھا۔ انہوں نے مغربی دنیا کے ذہن میں راسخ ہوجانے والی اسلام اور مسلمانوں کی غلط تصویر کو ٹھیک کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔
    1981میں ان کی صحت کے بارے میں خدشات نے جنم لینا شروع کردیا اور ڈاکٹروں نے انہیں’’پارکنسنس سنڈروم‘‘مرض کا شکار پایا۔ آبائی قصبے میں قائم محمد علی سینٹرمیں وہ گذشتہ کئی سالوں سے رعشے کے اس مرض میں مبتلا رہے لیکن وہ ہمت نہیں ہارے۔ انہوں نے فلاحی کاموں کو نہیں چھوڑا اور حال ہی میں اپنے آبائی قصبے لوئسویل میں 6 منزلہ محمد علی سینٹر قائم کیا ہے۔ایک مشہور شخصیت، ایک باغی، ایک مسلمان، حقوق انسانی کے علمبردار اور ایک شاعر، جس نظر سے بھی دیکھا جائے محمد علی نے ہمیشہ نسل پرستی کو شکست دی اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب محمد علی کرہ ارض پر بلا شبہ سب سے زیادہ شہرت یافتہ شخص بن گئے۔محمد علی کو سانس کی تکلیف کے باعث 2 جون، 2016 کو ہسپتال میں داخل کروایا گیا۔اگلے دن علی کی حالت بگڑ گئی۔ اس کے بعد ان کی حالت بہتر نہیں ہوئی اور 3 جون کو 74 سال کی عمر میں وہ داعی اجل کولبیک کہہ گئے۔ محمد علی نے زندگی میں چار شادیاں کیں جس نے ان کی 7 بیٹیاں حنا، لیلی، مریم، رشیدہ، جمیلہ، میا، خالیہ جبکہ دو صاحبزادے اسعد اور محمد جونیئر ہیں۔10جون جمعہ کوامریکی ریاست کینٹکی کے شہر لوئی ویلی میں دنیا کے عظیم باکسر محمد علی کی نمازِ جنازہ ادا کردی گئی جس کے بعد ان کی تدفین آبائی علاقے میں ہوئی ۔
اس پوسٹ کے لئے 1 تبصرہ ہے
liaqath Says:
I salute to Mohammed Ali World-Class Sportsman who understood Islam

Comment posted on June 16 2016
تبصرہ کیجئے
نام:
ای میل:
تبصرہ:
بتایا گیا کوڈ داخل کرے:


Can't read the image? click here to refresh
http://st-josephs.in/
https://www.owaisihospital.com/
https://www.darussalambank.com

موسم کا حال

حیدرآباد

etemaad rishtey - a muslim matrimony
© 2025 Etemaad Urdu Daily, All Rights Reserved.